خُنک شاموں کے ملجگے اندھیروں میں
درختوں کی ویران ٹہنیوں سے چھلکتا آسمان
ٹمٹماتے بُجھتے جلتے ستاروں سے مزین
کپکپاتا سا ٹھٹھرتا سا آسمان
بےنور سا بےرنگ سا آسمان
اے سرمگیں وسعت یہ تو بتا
وہ چندن سی چاندنی کیا ہوئی
وہ راگ کیا ہوا، راگنی کیا ہوئی
کھو گئی جو ان دھندلکوں میں
وہ میری کہانی کیا ہوئی
جوانی کیا ہوئی
تارا ٹوٹا دیکھ کے دل نے کی پکار * کوئ مجھے بھی دیکھتا، میں ٹوٹا سو بار * ہری ہری میں ہر گئ، میں ہاری ہر بار * ہار ہی موری جیت ہے، موھ سنگ کھیلے یار
Wednesday, November 29, 2017
سردیوں کی شام
Thursday, November 16, 2017
رقصِ سودائی
اس سے پہلے کہ آنکھیں بند ہوں
چلو کوئی بات کر گزریں
ہوا کی تھپکیوں پر
اُڑتے پتوں کی مانند
خیال کا بہاؤ
پھر اُدھر موڑیں
جہاں ابھی بھی پھول کھلتے ہیں
جہاں رقصاں ہیں بہاریں آج تلک
جہاں روشنی کے دئیے جلتے ہیں
اے میرے نوحہٌ دل
وہ بےخبر
اسے کیا پتہ
نہ کہہ سکیں گے
نہ رہ سکیں گے
لوٹ آئیں گے پھر بن کہے
تیرے در کے بھکاری
اک بار پھر
جھولی خالی
#RandomThoughts
Subscribe to:
Posts (Atom)