Thursday, November 16, 2017

رقصِ سودائی

اس سے پہلے کہ آنکھیں بند ہوں
چلو کوئی بات کر گزریں
ہوا کی تھپکیوں پر
اُڑتے پتوں کی مانند
خیال کا بہاؤ
پھر اُدھر موڑیں
جہاں ابھی بھی پھول کھلتے ہیں
جہاں رقصاں ہیں بہاریں آج تلک
جہاں روشنی کے دئیے جلتے ہیں

اے میرے نوحہٌ دل
وہ بےخبر
اسے کیا پتہ
نہ کہہ سکیں گے
نہ رہ سکیں گے

لوٹ آئیں گے پھر بن کہے
تیرے در کے بھکاری
اک بار پھر
جھولی خالی

#RandomThoughts

No comments: